السبت

1446-11-12

|

2025-5-10

غزہ اور فلسطین میں جاری اجتماعی نسل کشی کے حوالے سے ویٹیکن چرچ  کے پوپ ؛ پوپ فرانسس کے نام کھلا خط

تقدس مآب پوپ"ورخی ماریو بیرجولیوفرانسس" روم کے بشپ اور کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا!

اس کائنات کے ہر معصوم انسان کو سلام، امن، سکون اور اطمینان نصیب ہو:

میں آپ کو یہ پیغام فلسطین اور غزہ کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی قبضے ، نیز اسرائیل اور  اس کے حامیوں کی طرف سے کیے جانے والے قتل عام اور اجتماعی سزاؤں کے حوالے سے اس امید کے ساتھ بھیج رہا ہوں کہ آپ اس کی جانب اپنی خصوصی توجہ مبذول فرمائیں گے، آپ کے دل پر  اس کا اچھا اثر پڑے گا، اور فلسطین میں انسانی مصائب کے خاتمہ  کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے؛ کیونکہ اس خط کو لکھنے  کا مقصد خالص انسانی  و اخلاقی ہمدردی اور عظیم خالق سے قربت  حاصل کرنا ہے۔

محترم پوپ !جس وقت میں یہ خط لکھ رہا ہوں، قابض اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی فوج کے ہاتھوں  حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقدار، اصولوں اور تعلیمات کی بے حرمتی؛ انہیں کی سب سے پسندیدہ سرزمین اور تمام آسمانی شریعتوں کے مسکن  "فلسطین" پر کی جا رہی ہے ، جو ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں،مظلوموں کے خلاف انتہا درجے کی سفاکیت اور قتل و غارت گری پر عمل پیرا ہورہے ہیں    ،معصوم بچوں، عورتوں اوربوڑھوں پر بمباری کرکے خوش ہورہے ہیں، بےگناہ شہریوں کا محاصرہ کررہے ہیں، انہیں بھوکا مارتے ہیں اور غزہ شہر میں ان کی دوائی، پانی، خوراک اور بجلی کی سپلائی بند کر  رہے  ہیں۔

دکھ  کی بات یہ ہے کہ یہ سارے واقعات مغربی "مسیحی " حکومتوں کی ناک کے نیچے ہو رہے ہیں، جیسے کہ امریکہ  برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی کی ریاستیں، جن ممالک کے آئین میں اعلیٰ انسانی اقدار موجود ہیں اور  جو "مسیحی" اخلاق و جذبات اور روحانی حوالوں  کو اپناتے ہیں۔ ان  لوگوں نےمعصوم شہریوں  کے ساتھ ہونے والے اس بھیانک قتل عام کے سامنے خاموش رہنے  پر ہی اکتفاء نہیں کیا  بلکہ اپنے لشکر، اسلحے اور پیسے کے ساتھ اس میدان میں کود پڑے ،اور اس ظلم و  جارحیت کے حق میں ہر قسم کی سیاسی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد فراہم کرکے اس انسانی المیے میں شریک ہوئے جو    آسمانی تعلیمات سے متصادم  اور انسانی ثقافت و تہذیب کے راہنماؤں کے طریقہ کار کے خلاف ہے۔ جن میں خدا کے پیغمبرحضرت ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام شامل ہیں۔   ان کے صحیفوں  کا جو مضمون ؛ ہمارے مہربان پروردگار کی زبانی اس کی مقدس کتاب قرآن میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ: "کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں ملی جو موسیٰ کے صحیفوں میں درج ہے۔اور ابراہیم کے صحیفوں میں بھی، جو مکمل وفادار رہے ؟یعنی یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، اور یہ کہ انسان کو خود اپنی کوشش کے سوا کسی اور چیز کا (بدلہ لینے کا) حق نہیں پہنچتا۔اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔پھر اس کا بدلہ اسے پورا پورا دیا جائے گا۔" (النجم) : 36-41)

تمام مستند آسمانی پیغامات اور نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسولوں اور انبیاء کی دعوت میں ؛ زندگی کی اساس  عدل و انصاف  کے اس اصول پر قائم تھی  کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تو اس اجتماعی سزا، ہولناک قتل عام اور صہیونی جرائم کو کیسے  انجام دیا جا  سکتا ہے، جس میں مرنے والوں کی تعداد اس خط کے لکھنے کے وقت تک  4700 کے قریب  پہنچ  چکی ہے، جس میں 1,873 بچے، 1,023 خواتین، 187 بوڑھےہیں اور درجنوں افراد غزہ کے    ملبہ  تلے دبےہوئے ہیں ،  اور یہ سب کچھ مغربی رہنما ، ادارے، مذہبی مراکز، گرجا گھر ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی میڈیا  میں سے اکثریت کی منافقانہ  (ومجرمانہ) خاموشی   کے سائےمیں انجام دیا جا  رہا ہے ، ایسا محسوس ہوتا  ہے  گویا کہ فلسطین میں جان دینے والے لوگ انسان نہیں ہیں؟!

محترم پوپ: ہم نے غزہ کی پٹی میں محصور لوگوں کی مدد کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداری کھولنے کے لیے آپ کے مطالبات پر عمل کیا۔  ہم نے ویٹیکن کے وزیر خارجہ، کارڈینل بارو پیرولین کے بیانات کی پیروی کی، انہوں نے کہا: "ویٹیکن کی ترجیح ان لوگوں  کی رہائی کو محفوظ بنانا ہےجوحماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اور کسی بھی ضروری ثالثی کے لیے تیار ہیں۔  انہوں نے ویٹیکن میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: "حماس کی طرف سے کیا گیا حملہ غیر انسانی ہے،نیز انہوں نے کہا:" یہاں تک کہ  اپنے جائز دفاع میں بھی تناسب کے معیار کا احترام کرنا چاہیے! ہم نے قابض اسرائیلی  حکومت  کے وزیر خارجہ  ایلی کوہن کے بیانات کو بھی سنا "یہ توقع کی جاتی ہے کہ ویٹی کن کو اسرائیلی مصائب کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے " ہم حیران ہیں کہ ویٹیکن کی قیادت کی ترجیح یرغمالیوں کی رہائی ہے اور اس بات کا ہلکا سا  اشارہ بھی نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے عام شہریوں کے قتل عام کو روکنے کی ضرورت ہے۔ کیا مرنے والوں، زخمیوں، بے گھر ہونے والوں، بھوکوں، اور بہت سے خاندانوں کے لوگ جو تباہ ہو چکے ہیں، ان  کے مصائب ،اسرائیلی یرغمالیوں کے مصائب کے برابر ہیں!؟

پھر کیا آپ کے میڈیا کے بیانات اور آپ کا بزدلانہ  موقف، غزہ اور فلسطین میں انسانی مصائب اور ہولناک جرائم کو روکیں گے؟ کیا یہ اسرائیل کی جارحیت کو پسپا کرنے کے لیے کافی ہے جس نے فلسطین پر کئی دہائیوں سے اپنے قبضے سے عیسائیوں اور مسلمانوں کو جان بوجھ کر ہراساں کیا اور ان کے مقدسات کی توہین کی؟ کیا پوپ؛ یروشلم آنے والے عیسائی زائرین کو تحلیل کرنے والے ،بار بار کے نسل پرست صہیونی اقدامات سے واقف ہیں، اور انہیں" سبت النور" اور" عید الفصح المجید" کے موقع پر اپنی عبادت اور مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے"   کنیسۃ القیامہ  "پہنچنے سے کئی بار روک چکے ہیں؟اور یروشلم، بیت لحم، ناصرت اور ہیبرون کے تاریخی عیسائی گرجا گھروں پر ان کے حملے، بشمول "کنیسۃ القیامہ" "کنیسۃ القبر" اور "کنیسۃ المہد "  کےجو بیت لحم میں ہیں اور بشمول  "کنیسۃ البشارہ" کے جو "ناصرہ " میں ہے ۔ یہ سب  یروشلم شہر میں آرمینیائی سرپرست کی دیواروں پر آباد کاروں کے حملوں کے علاوہ ہے، نیز ان دیواروں پر یہ نعرے لکھے ہوئے ہیں  : "عرب، آرمینی اور مسیحی  مردہ باد"، اور یہ کہ "یروشلم صرف یہودیوں کا ہے"؟

کیا یروشلم میں عیسائی پادریوں پر یہودی آباد کاروں کے تھوکنے کی محض مذمت کرنا  کافی ہے، جو کہ وہاں قابض افواج کی سرپرستی میں آئے دن ہوتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف  عیسائیوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے؟ کیا غزہ پر ان وحشیانہ حملوں سے بڑا بھی کوئی  ثبوت ہے جس میں اسرائیلی مشین نے اینگلیکن ایپسکوپل چرچ کےما تحت چلنے والے معمدانی ہسپتال کو تباہ کیا اور غزہ میں سینٹ پورفیریوس کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ کو تباہ کیا؟ مسلمانوں کی ۳۱ مساجد پر حملہ ہوا ہے جس میں سے ۲۶ مساجد مکمل طور پر تباہ ہو چکی  ہیں ، تو جو کچھ ہو رہا ہے اسے ختم کرنے کے لیے محض یہ بیانات کیسے کافی ہو سکتے ہیں؟ جو بھی اسے غور سے پڑھے گا وہ کہے گا  کہ یہ تو قاتل اور مقتول کے درمیان برابری ہے۔ جبکہ ۱۹۴۸ءمیں اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے آغاز سے  فلسطین کی مسلمان اور عیسائی آبادی پر کی جانے والی   درجنوں جنگی خلاف ورزیوں  اور جرائم کو  مسلسل نظر انداز  کیا جا رہا  ہے؟!

محترم پوپ! اس ظالمانہ اجتماعی سزا میں    بچوں  اور بوڑھوں کا کیا قصور ہے ، جسے انجام دینے میں انسانی حقوق ، بین الاقوامی قانون اور آسمانی تعلیمات کو روندا جا رہا ہے؟  یہ جارحانہ اقدامات ؛ زندگی میں انسانی حقوق کی آزادی اور احترام کے حوالہ سے مغربی حکومتوں کے دوغلے پن کی تصدیق کرتے ہیں، انہوں نے مغربی تہذیب اور ان بلند اقدار کو مجروح کیا ہے جنہیں ہمارے آقا حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں لیکر آئے تھے۔ لہذا اس جارحیت  اور جنگی جرائم کو بے نقاب کرنےکے لئے  اور ہر قسم کے رنگ ، نسل اور عقیدہ کے تعصب سے بالاتر ہو کر انسانوں کے حق میں آواز اٹھانا آپ کا فریضہ ہے ۔چنانچہ آپ کی روحانی اور تاریخی تعلیمات ؛ جرائم ، انسانوں سے امتیازی سلوک اور نسلی برتری    جیسی بد ترین شکلوں کے ذریعہ انسان ، انسانی تہذیب اور اس کے موثر کردار کو مسخ کرنے والوں کے سامنے ، عدل و انصاف کے قیام اور مظلوں کی مدد  کے سلسلہ میں  اسی بات کا آپ کو حکم دیتی ہے۔

محترم پوپ: تمام انبیاء اور رسولوں کا نقطہ نظر؛ آدم علیہ السلام سے شروع کرتے ہوئے، اور ہمارے آقا نوح، ابراہیم، اسحاق، یعقوب، یوسف، ہارون، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ  سے گزرتے ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)  تک ،اس ظلم و ناانصافی  کا خاتمہ ہے  اور  انسانی  اقدار کو اس کی  اعلیٰ ترین  شکلوں  جیسے آزادی، انصاف، وقار، انسانی حقوق اور مال و جان کے تحفظ کی حمایت کرنا  ہے۔ کیا آپ کی تقریر اور آپ کی آوازاس ظلم و ناانصافی کو روکنے اور مظلوموں کو اس اجتماعی عذاب سے بچانے میں اپنا کوئی کردار ادا کر پائے گی؟!

محترم پوپ: تاریخِ انسانیت، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور  اپنی دیگر آسمانی کتابوں میں محفوظ کر رکھا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ جب آدم کے بیٹے میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا اور اس پر افسوس کا اظہار کیا، اور قتل کرنے والا خدا کے غضب کا مستحق ہوا ، کیونکہ کسی جان کو بے وجہ قتل کرنا فساد فی الا رض ہے(دہشت گردی ہے) اور یہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے ، جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ا ور (اے پیغمبر) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔  اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ : میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔

اگر تم نے مجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا تب بھی میں تمہیں قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔

آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔

پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے (یہ دیکھ کر) وہ بولا۔ ہائے افسوس ! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا  اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔(المائدۃ: ۲۷  تا ۲۹)

تو اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتابوں میں ہم پر واضح فرماتا ہے کہ جو شخص کسی جان کو قتل کرتا ہے  بغیر کسی قتل کے یا زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے تو  گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، تو اس کا کیا حال ہو گا جس نے بغیر  کسی رحم و کرم کے تمام انسانیت اورمغرب و مشرق میں  امن و سلامتی کے  پیغام کے علمبرداروں کے سامنے ہزاروں عورتوں ، بچوں  اور بوڑھوں  اور بے گناہ شہریوں کو قتل کیا؟  اور آپ ان علمبرداروں  میں سب سے سر فہرست ہیں ، اے محترم پوپ!؟

محترم  پوپ: آپ کی شخصیت؛ روحانی خصوصیات ، انسانی اصولوں اور تہذیبی پیغام  میں  دنیا کے بہت سے مسیحی لوگوں کے لیے، خاص طور پر مغربی معاشروں کے لیے  ایک رول ماڈل ہے۔ فلسطین میں ہو رہی نسل کشی، نقل مکانی اور قتل عام سے متعلق آپ کی خاموشی ، امن کے اس مفہوم کے برعکس تاثر دیتی ہے جس کی طرف  آپ اور مغرب کے عیسائی پادری  عبادت کے  موقعوں  پر دعوت دیتے ہیں اور دعاؤں میں اسے مانگتے ہیں ۔اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک منصفانہ جنگ ہے، تو پھر یہ بذات خود ایک المیہ ہے، اور میں نہیں سمجھتا کہ مسیحی لٹریچر یا آسمانی پیغامات میں ایسی کوئی چیز موجود ہے جو قتل اور انتقامی کارروائی کو جائز قرار دیتی ہو الا یہ کہ وہ کسی حق کے بدلہ میں ہو۔

محترم پوپ: ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک ایسے عقیدے سے تعلق رکھتی ہے جو کسی انسان کے خلاف ناانصافی یا جارحیت کو پسند نہیں کرتی، خواہ اس کی ثقافت، عقائد، مذہب یا نسل  کچھ بھی ہو،ہمارا تعلق  اس تہذیب سے ہے جو امن، بھائی چارے ، انسانی محبت، رواداری اور پر امن بقائے باہمی  پر یقین رکھتی ہے۔ میں اس ٹھوس انسانی طرز عمل کی اپنی اسلامی تاریخ سے بہت سی مثالیں پیش نہیں کروں گا سوائے  خلیفہ راشد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دورکی جب وہ پہلی مرتبہ  قدس اور فلسطین کو فتح کرنے جا رہے تھے۔ اس وقت  انہوں نے مذہبی رواداری اور انسانی بھائی چارے کی سب سے شاندار مثالیں قائم کیں اور وہاں کے عیسائیوں سے  بقائے باہمی، محبت اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ ملاقات کی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت کے معاہدہ میں اہل ایلیاء (قدس) کو  ان کی جان ، مال  ، ان کے گرجا گھروں، اور ان کی صلیبوں، ان کے صحت مند اور معذوروں اور ان کے مذہب کی تمام چیزوں کو تحفظ فراہم کیا : کہ ان کے گرجہ گھر وں میں کوئی اور آباد  نہ ہوگا، نہ انہیں منہدم کیا جائے گا، نہ اس کے آس پس کی جگہ میں کوئی کمی بیشی کی جائے گی، نہ ان کے مال کو چھینا جائے گا، نہ ان کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے گا ، نہ ان میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا، نہ کوئی یہودی ان کے ساتھ وہاں  ایلیاء میں رہے گا (عیسائیوں کی درخواست پر)۔  اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ  امیر المومنین مسلمانوں کی طاقت کے زمانہ میں بھی معاشرہ میں عقیدہ کی آزادی کے اصول کو نافذ کرنے کے کتنے خواہشمند تھے۔

ہم اپنی تاریخ کے مختلف مراحل میں عفو و در گذر اور خیرخواہی کی تہذیب سے تعلق رکھنے والی امت ہیں، جیساکہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس کی فتح کے موقع پر اپنے صلیبی دشمنوں کے ساتھ اخلاق و رواداری کی بہتریں مثالیں قائم کیں، خود عیسائی مورخین نے مسلمان فاتحین کی خوش اخلاقی کی تعریف کی ہے، چنانچہ  امریکی مورخ جیمس ویسٹن کہتا ہے: "اس طرح صلاح الدین ایوبی کے لشکروں نے ۱۱۸۷ء میں قدس پر قبضہ کرتے وقت بہترین سلوک کیا، اور صلاح الدین ایوبی نے  ۱۰۹۹ ء کی پہلی جنگ میں صلیبیوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا بدلہ نہ لیکر اپنے منصب اور شہرت کی قربانی دی ہے، نیز اس نے"  قیامہ " نامی گرجا گھر اور دیگر مسیحی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا ،سارے لوگ صلاح الدین ایوبی کے دیگر مذاہب خصوصا عیسائی مذہب کے تئیں  رواداری کے اس رویہ کو یاد رکھیں گےاور یوں محسوس ہوتا ہے کہ  ان کے یہ کارنامے اس نیک راستہ پر چلنے والوں کے لئے نمونہ اور رہنما ثابت ہوں گے اور انہیں اپنے عفو و در گذر، خیر کے متعدد پہلو  اور اپنے دشمنوں کے ساتھ مہربانی اور رواداری کے سلوک کی وجہ سے تارٰیخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا"۔

جیسا کہ فرانسیسی مؤرخ اور فلسفی اسٹیفن رینسیمان نے دیکھا:''... فاتح مسلمان اپنے صحیح طریقہ کار  اور انسانیت کے لیے مشہور تھے، جب کہ 88 سال پہلے فرنگ اپنے مظلوموں کے خون میں رنگے ہوئے تھے، اب  نہ کسی گھر لوٹا  گیا ہے، نہ کسی بھی شخص کو کوئی نقصان پہنچا گیا ، کیونکہ پولیس والے صلاح ا  لدین ایوبی کے حکم پر  سڑکوں پر گھومتے اور شہر کے دروازوں پر پہرا دیتے تھے اور عیسائیوں پر ہونے والی ہر قسم کی زیادتی کو روکتے تھے''۔

فرانسیسی مورخ رینہ غروسیہ  نے کہا؛''صلیبیوں کے بر خلاف صلاح الدین نے اپنے وعدوں کو بڑے احترام ، انسانی احساس اور بہادری کے جذبہ کے ساتھ نافذ کیا، جس نے ان واقعات کو نقل کرنے والے لاطینی مورخین کو حیرت و استعجاب میں ڈال رکھا ہے۔ غروسیہ نے مزید کہا: '' بعض  متعصب لوگوں نے صلاح الدین ایوبی سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کردیں  خصوصا''قیامہ '' والے گرجا گھر کو تاکہ مقدس تثلیث پر ایمان رکھنے والے عیسائیوں کا حج بند ہو جائے ، تو صلاح الدین نے ان کو ایک جملہ  میں خاموش کردیا اور کہا: '' کیوں منہدم کر دیا جائے؟! زیادہ سے زیادہ ان کی عبادت کی جگہ عمارت کے اندر صلیب اور قبر مقدس ہے ، خارجی  عمارت نہیں ہے۔اور اگر عمارت کو زمین بوس کردیا جائے تب بھی عیسائیوں کے بہت سارے گروہ اس جگہ پر آنے کو ترک نہیں کریں گے۔ لہذا ہمیں وہی کرنا چاہئے جو  حضرت عمر نے اسلام کے ابتدائی سالوں میں یروشلم کو فتح کرتے ہوئے کیا کہ انہوں نے ان عمارتوں کو محفوظ رکھا'' غروسیہ مزید کہتا ہے: '' یہ خوبصورت عبارت  اس عظیم بادشاہ کی اظہار آزادئ فکر و عقیدہ کے تصور کی آئینہ دار ہے''۔

محترم پوپ! ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم مظلوم انسانوں ۔چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ کا مقدمہ لڑ کر خالق کائنات اور خدا کا قرب حاصل کرتے ہیں جس نے اچھے اچھے ناموں سے اپنی پہچان کرائی ہے ، وہ کہتا ہے:وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ چھپی اور کھلی ہر بات کو جاننے والا ہے۔وہ اللہ وہی ہے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو بادشاہ ہے، تقدس کا مالک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، بڑے اقتدار والا ہے، ہر خرابی کی اصلاح کرنے والا ہے، بڑائی کا مالک ہے۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔وہ اللہ وہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے، وجود میں لانے والا ہے صورت بنانے والا ہے،  اسی کے سب سے اچھے نام ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ اس کی تسبیح کرتی ہیں، اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔(سورہ حشر ۲۴،۲۲)

محترم پوپ: وہ عظیم پیش رفت جو مغربی تہذیب اور اقدار میں کچھ مصنفین، مورخین، علما، اور صہیونیت سے وابستہ پیشہ ور افراد کی طرف سے پیش آئی، اور ہیکل سلیمانی کے خیال کے بارے میں اس کے جھوٹے دعوے اور موعودہ سرزمین کا نظریہ جس کی وجہ سے آج بے گناہوں کا خون ناحق بہایا جا رہا ہے، یہ وہ جھوٹ اور انحرافات ہیں جن کی مخالفت بہت سے عیسائی علماء اور ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی سنجیدہ اور معروضی تحقیق میں کی ہے، حتیٰ کہ خود یہودیوں نے بھی اس کی تردید  کی ہے۔ ہم صرف ایک مثال ذکر کرتے ہیں: اسرائیلی ماہر آثار قدیمہ اسرائیل فلنشٹائن، جو تل ابیب یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم ہیں اور  جس نے متعدد یہودی اور مغربی محققین کی  مشترکہ رائے پیش کی ہے  کہ حرم مقدس، مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کے نیچے ارض موعود اور ہیکل سلیمانی کے نام پر   کی جانے والی کسی بھی قسم کی کھدائی   کے حق میں  ایک بھی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ایک اور  ماہر آثار قدیمہ  پروفیسر زائیف ہرتزوج، جنہوں نے یروشلم، اریحا اور فلسطین کے دیگر   بڑے علاقوں میں آثار قدیمہ کی کئی کھدائیوں اور مشنوں میں حصہ لیا، وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ: "کسی ایسی چیز کی تلاش سے رک جانے کا وقت آ گیا ہے جو پہلے سے موجود ہی نہیں ہے"۔

ربی کین سیبرو، جو پوری دنیا سے یہودی مذہبی طلباء کو اریحاء  تک لاتے ہیں، وہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ  ارض موعود  کے بارے میں یہودی کہانیوں کی سچائی کے سائنسی ثبوت کھوکھلے یا تقریباً کمزور ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی تصدیق بیت لحم بائبل کالج کے اکیڈمک ڈین اور لوتھرن چرچ آف دی نیٹیویٹی کے پادری ڈاکٹر منذر اسحاق نے ایک بہت ہی اہم کتاب میں کی ہے جس کا عنوان ہے ‏ " The Promised Land" ‏ ۔

آئرش امریکی آثار قدیمہ کے نقاد،جان ڈومینک کراسن بھی  " بائبل کے وعدے" اور جو کچھ یروشلم وفلسطین میں کھدائی کے درمیان تحقیق میں ثابت ہوا اس کے درمیان خیالی ربط قاائم کرنے کے حوالہ سے اسی  مذکورہ نتیجہ پر پہنچے ہیں۔محترم پوپ! یہ بعض اشارے ہیں جو  ہمیں عقلی اور منطقی دلائل  کی وجہ سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ  ہم اس معاملہ میں انصاف سے کام لیں ، اور تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں، نیز یہ شواہد اس بات کو پختہ کرتے ہیں کہ فلسطینی ہی یہاں کے اصل باشندے ہیں اور ان کا تاریخی حق ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی سرزمین سے چمٹے ہوئے ہیں اور عزت و آبرو اور اپنے مقدسات کا دفاع کر رہے ہیں،اور  وہ قدس اور فلسطین میں اس ظالم قابض کے سامنے  اپنے اسلامی و مسیحی  تہذیبی ورثہ سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہنے میں بالکل حق بجانب ہیں ، جس نے اپنے کو جواز فراہم کرنے والی تمام  روایتوں کو بالکل کمزور بنیادوں پر استوار کیا ہے۔

محترم پوپ!فلسطینی عوام جن سنگین حالات سے گذر رہے ہیں  وہ  آپ سےانسانی اور اخلاقی بنیادوں پر  مندرجہ ذیل باتوں میں   مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں :

  • فلسطین اور غزہ میں معصوم شہریوں کے ساتھ  جو کچھ ہو رہا ہے اسے مسترد کرنا اور انہیں میدان جنگ سے دور رکھنے کی اہمیت پر زور دینا۔
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو خاتمہ جیسے کہ  مساجد، گرجا گھر، اسکول، اسپتال ، شہری دفاع کے مراکز، بیکری اور ہوٹل، بجلی  اور پانی اسٹیشن، سڑکیں اور محفوظ رہائشی محلوں کو   انہدام کی مذمت کرنا ، نیز بے گھر شہریوں کے لئے    UNRWA کی پناہ گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانا۔
  •  ۲۰۰۶ ء سے  اب تک اہل غزہ پر مسلط کردہ نا جائز محاصرہ کو ختم کرنا اقور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کو بند کرنا۔

اے محترم پوپ! ہمارا یہ پیغام تاریخی اور سائنسی اعداد و شمار ،  تعاون ، مکالمہ اور روادری کی اقدار کی بنیاد رکھنے والی فکر اور نقطہ نظر سے خالی نہیں ہے ، بلکہ  ہمارے پاس حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت  کی روشنی میں ظلم و فساد کو روکنے کی مکمل تعلیم موجود ہے اور انسانی بھائی چارہ، امن و سلامتی اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے اسلام کے رہنما خطوط ہیں۔   ہمارا انبیاء اور بادشاہ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی دعوت پر ایمان ہے۔اور جیسا کہ ارض فلسطین پر فلسطینوں کے حق کے سلسلہ میں کثرت سے شواہد موجود ہیں ، یہ دلائل و شواہد ہمیں یکطرفہ جارحانہ نظریہ کو اپنانے کے بجائے مختلف ثقافتوں ، تہذیبوں  اور عقائد و نظریات کے درمیان افہام و تفہیم اور مکالمہ کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یک طرفہ جارحانہ سوچ نے انسانیت کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں، اور انسانیت پر اس کے بڑے برے سماجی،  مادی اور نفسیاتی اثرات پڑے ہیں،   جس کی وجہ سے دنیا کے بڑے حصہ میں خوف و ہراس اور تخریب کاری پھیل چکی ہے، اور  مختلف ثقافتوں اور قوموں کے درمیان رشتے اور تعلقات کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں ۔ یہ تمام باتیں حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت اور  اس محمدی پیغام کے خلاف ہے جو امن و سلامتی،جانشینی، محبت و ہمدردی ، آپسی تعاون اور دنیا کی مختلف  پہلؤوں سے تعمیر کے حوالہ سے آخری آسمانی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔

اور تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہے کو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔

راقم :دکتور علی محمد  الصلابی

ڈپٹی سیکریٹری  جنرل ، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین

۷ ربیع لآخر ۱۴۴۵ ھ/۲۲ اکتو بر ۲۰۲۳ء

 

 

 

 

 

 

 


مقالات ذات صلة

جميع الحقوق محفوظة © 2022